‏آج کی عدالتی کاروائی کا مکمل احوال خالد حسین تاج ایڈووکیٹ ہائیکورٹ

Expose News 24


‏آج کی عدالتی کاروائی کا مکمل احوال خالد حسین تاج ایڈووکیٹ ہائیکورٹ 


آج 11:54 منٹ پر 9 رکنی بینچ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے پچھلے 16ماہ میں پہلی مرتبہ چیف جسٹس بندیال کےدائیں  جانب  قاضی فائز عیسی بیٹھا تھا 


جبکہ بائیں جانب سردار طارق مسعود،اس سے پہلے جب بھی 184/3 کے کیسز ہوتے تھے تو چیف جسٹس کے دائیں جانب اعجاز الاحسن


جبکہ بائیں جانب منیب اختر بیٹھتے تھے کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے وکلا کو دیکھ کر کہا گُڈ ٹو سی یو


 اس ریمارکس کے بعد درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل روسٹرم پر آ ئے۔


چیف جسٹس بندیال نے وکیل سے کہا کہ پہلے لطیف کھوسہ کو آگے أنے دیں وہ سینیئر ہیں


لطیف کھوسہ نے روسٹرم پر آتے ہی یہ جملہ کہا آج آپ سب کو ایک ساتھ بینج میں دیکھتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو


 رہی ہے اس پر جسٹس قاضی عیسی نے کہا کہ ٹھہریں پہلے اٹارنی جنرل کو سامنے آنے دیں اُن سے بات کرنی ہے۔


لطیف کھوسہ نے کہا کہ مجھے خوشی کا اظہار تو کرنے دیں۔ قاضی عیسیٰ نے کہا کہ یہ سیاسی فورم نہیں خوشی کا اظہار


 باہر جا کر کریں مجھے بات کرنے دیں۔


قاضی عیسیٰ نے کہا’میں پاکستان کی قومی زبان میں بات کروں گا۔ آئین کا آرٹیکل 175(2) عدالتوں کو اختیار

 سماعت دیتا ہے،میرے حلف کے مطابق میں آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دوں گا۔قاضی عیسی نے کہا اٹارنی

 جنرل آپ روسٹرم پر ائیں کچھ کہنا چاہتا ہوں، قاضی عیسی نے کہا واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات

 کو بینچ میں نام آیا، مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی.جسٹس قاضی فائز نے کہا فوجی عدالتوں کے خلاف سب سے

 آخری درخواست سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے دائر کی اُس کو کاز لسٹ میں پہلا نمبر دیا گیا


جبکہ جو درخواست عمران خان نے ایک ماہ قبل دائر کی اُس کو آخری نمبر دیا گیا


قاضی عیسی نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے آٹھ رکنی بنچ نے روک دیا تھا.


جسٹس قاضی عیسٰی نے کہا کہ میرے سامنے آیا کہ حلف کی پاسداری کرکے بنچ میں بیٹھوں یا پھر میں نے حالات کو

 دیکھ کر چیمبر ورک شروع کیا، جب مجھ سے چیمبر ورک کے بارے میں پوچھا گیا تو 5 صفحات کا نوٹ لکھ کر بھیجا.

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ چیمبر ورک کی وجہ سے چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہے اس لیے کھلی عدالت میں بات

 کرتا ہوں، میرے دوست یقینا مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا 


اس کے بعد انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی معطلی کے بارے میں 8 رکنی بینچ کا فیصلہ پڑھا۔اور کہا’ پریکٹس

 اینڈ پروسیجر ایکٹ کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور میں اس بینچ کا حصہ نہیں ہوں، اس لیے اس پر رائے نہیں دوں گا۔ 


قاضی عیسی نے کہا 5 مارچ کو ایک بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے فیصلہ دیا جو 184/3 کے کیسز کے حوالے سے تھا

 لیکن مجھے تعجب ہوا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار نے ایک سرکلر جاری کیا جس میں کہا گیا کہ میرے جاری کردہ فیصلے کو

 نظر انداز کیا جائے۔


قاضی عیسی نے کہا کہ اس 6 ممبر بنچ میں اگر نظر ثانی تھی تو مرکزی کیس سننے والا کوئی بھی جج شامل کیوں نہیں تھا،

 غلطی ہوتی ہے ہم انسان ہیں، مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے 8 رکنی

 بنچ نے روک دیا تھاقاضی عیسی نے مزید کہا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بھی قانون ہے جسے قانون بننے

 سے پہلے ہی معطل کر دیا گیا۔ میری دانست میں اس ایکٹ کے بعد 3 رکنی ججز کمیٹی ‏کی مشاورت کے بغیر بننے والے

 تمام بینچز غیر قانونی ہیں۔ جب تک اس ایکٹ کا فیصلہ نہیں ہو جاتا میں کسی بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ میں نے

 آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔


قاضی عیسیٰ  نے کہا کہ میں اس بینچ میں بیٹھنے سے معذرت نہیں کر رہا بلکہ میں اس کو بینچ تسلیم ہی نہیں کرتا ‏یہ کہتے

 ہوئے قاضی عیسی بینچ سے اٹھ گئے۔


اس موقع پر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، آپ اس بینچ سے اٹھ کر نہ جائیں۔


جس پر قاضی عیسیٰ بولے’ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ایک بار آئین توڑ دیں، بعد میں دیکھ لیں گے۔‘


چوہدری اعتزاز احسن بولے کہ ایک گھر میں بھی لوگوں کے  درمیان کشمکش ہو جاتی ہے۔ اس پر قاضی عیسیٰ بولے’

 یہ گھر نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے جو آئین کے تحت کام کرتی ہے۔،


اس کے بعد اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست پر دلائل دینے کی کوشش

 کی اور کہا کہ یہ 25 کروڑ لوگوں کے انسانی حقوقِ کا معاملہ ہے 


‏اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 1956 کا آئین بنا ہوا ہے، پھر 1973 کا آئین بھی آیا، آپ کو اب انسانی

 حقوق کی خلاف ورزی یاد آئی ہے؟


اس پر سردار لطیف کھوسہ نے ہاتھ جوڑ کر کہا’ عوام پر رحم کریں‘۔


اس دوران اعتزاز احسن بولے’ میں عمر میں اتفاق سے آپ سب سے بڑا ہوں، چھوٹے بھائیوں کا ‏کا گھر میں اگر

 رنجشیں ہوں تو اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے‘۔


اس دوران بہت سے وکلا اپنے کرسیوں سے کھڑے ہو کر روسٹرم کے سامنے آ گئے عدالت میں قاضی فائز عیسی

 اور وکلاء کی آواز بھی بلند ہونا شروع ہوگی۔


قاضی عیسی نے ساتھ ہی بیٹھے چیف جسٹس کی طرف چہرہ موڑا اور ان کی طرف دیکھے بغیر کہا میں اٹھ رہا ہو، ایسے

 تکرار میں نہیں سن سکتا‘۔


جس پر چیف جسٹس نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ سے درخواست کی ہم اس مسئلہ کا

 حل نکالتے ہیں۔ جج صاحب کے موقف کا بھی ہمیں احترام کرنا ہوگا۔


جب تکرار ختم نہ ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے دیگر تمام ججز اپنی کرسی پر بیٹھے رہے۔


 چیف جسٹس نے حالات کو قابو میں کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس مسئلہ کا حل نکالتے ہیں، جس کے بعد چیف جسٹس

 اپنی کرسی سے اٹھے اور ساتھ ہی دیگر تمام ججز بھی اٹھ گئے۔ اور کمرہ عدالت سے روانہ ہو گئے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !
To Top